غزہ میں جان لیوا قحط سے متعلق یونیسف کی وارننگ
بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے فنڈ – یونیسیف (UNICEF) کے ترجمان ٹس انگرام، جو حال ہی میں غزہ شہر کا دورہ کر کے واپس ہپنچی ہیں، نے اعلان کیا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہاں عام لوگ بھوک سے دوچار ہیں اور غزہ شہر میں قحط پڑ چکا ہے جبکہ دیر البلح اور خان یونس میں بھی صورتحال کسی طور مختلف نہیں۔
یونیسف کی عہدیدار نے بتایا کہ غزہ شہر میں گذشتہ ماہ قحط کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ غزہ کی پٹی کے جنوی حصے میں دیگر شہر بھی "تیزی سے اس صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں” انگرام نے بتایا کہ میں نے غذائی قلت کا شکار ایک ماں سے بات کی جو اپنے 8 ماہ کے بچے کو دودھ پلانے سے بھی قاصر ہو چکی تھی اور اس کا بچہ بھی شدید بھوکا تھا۔ انگرام نے کہا کہ وہ اور اس کا شوہر پورے دن میں صرف 1 کپ چاول کھاتے تھے اور یہ ایک خوفناک صورتحال ہے!
ٹس انگرام نے مزید کہا کہ کہانی پہلی جیسے ہی ہے، مقامی باورچی خانہ ایک دن میں ایک خاندان کو صرف ایک کٹورا ہی فراہم کرتا ہے جو تقریباً ہمیشہ دال یا چاول پر مشتمل ہوتا ہے اور والدین اس سے کچھ بھی نہیں کھا سکتے تاکہ بچے کچھ نہ کھ کھا لیں۔ کوئی کھانے پینے کی اشیاء موجود نہیں ہیں اور کوئی دوسرا متبادل بھی نہیں۔ امداد کی شدید کمی ہے اور بازار میں قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق غزہ شہر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایک "ناممکن انتخاب” کا سامنا ہے: غزہ شہر میں عارضی گھروں میں رہیں اور ممکنہ صیہونی حملے سے بچنے کی امید رکھیں، یا بھیڑ بھرے ساحلی علاقوں میں پہنچ جائیں جہاں بہت ہی کم جگہ بچی ہے اور تقریباً کوئی سہولت بھی نہیں، پانی کی فراہمی یا صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں!
غزہ شہر سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی رہائش کے لیے اسرائیل کی جانب سے مقرر کردہ مرکزی ساحلی علاقے المواسی میں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ لاکھوں بے گھر افراد پہلے ہی اس علاقے کے ٹیلوں اور میدانوں میں بھرے ہوئے ہیں جبکہ خالی جگہ میں خیمے کے سائز کے ایک پلاٹ کا کرایہ "ماہانہ 300 ڈالر” ہے اور نئے آنے والوں کے لیے بہت ہی کم جگہ باقی بچی ہے۔ المواسی میں ایک امدادی کارکن نے یہ بھی بتایا کہ وہاں کافی پانی نہیں ہے، خیمے اور پناہ گاہیں بہت ہی کم ہیں، فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی کوئی مخصوص جگہ نہیں اور نہ کوئی سایہ ہے نہ ہی کسی کے لیے مزید جگہ… مختصر یہ کہ یہ پورا علاقہ انسانی رہائش کے لیے مکمل طور پر نامناسب ہے!
دوسری جانب یونیسیف کی جانب سے شائع ہونے والے اعداد و شمار سے بھی واضح ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ صرف 2 ہفتوں کے دوران ہی غزہ میں 5 سال سے کم عمر کے 7000 سے زائد بچوں کو غزہ میں اس ادارے کے زیر انتظام کلینکس میں شدید غذائی قلت کے علاج معالجے کے لیے لایا گیا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق اگرچہ یونیسیف ابھی اگست کے پورے مہینے کا یہ ڈیٹا مرتب کرنے میں مصروف ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اگست کے پورے مہینے کے دوران ان بچوں کی کل تعداد 15 ہزار سے بھی زائد ہے کہ جو ماہ فروری میں ریکارڈ کی گئی تعداد سے 7 گنا زیادہ ہے۔